پیارے بیٹے،

آداب!
آج تمہاری پیدائش کا دوسرا دن ہے، ابھی تک تمہیں کوئی نام تک نہیں دیا گیا۔ گزشتہ کل 15 اکتوبر 2020 کو رات کے 8 بج کر 50 منٹ پر کوئٹہ کے ایک نجی ہسپتال میں تمہاری ولادت ہوئی۔ 15 اکتوبر کے دن تہماری پیدائش کے علاوہ دنیا میں کیا کچھ ہوا یہ تم ‘گوگل’ کر کے پڑھ لینا۔
یہ خط لکھنے کی کئی وجوہات میں ایک اہم وجہ یہ ہے کہ، ہم اس قدر غیر یقینی حالات میں رہ رہے ہیں کہ کچھ پتا نہیں کب کسی اندھی گولی کا نشانہ بن جائیں، کب کسی بم دھماکے میں ہمارے جسم کے ذرے بکھرے ہوں، نا جانے کب کوئی معمولی روڈ حادثہ ہماری جان لے لے یا کب ہم ‘لاپتہ’ کر دیے جائیں اور تم اپنے باپ کا پتہ پوچھنے پر “غدار” قرار دے دیئے جاو۔

خدا کرے تمہاری جوانی تک، تہمارے یہ خط پڑھنے تک ایسا کچھ نہ ہو، تم ایک حسین، پرسکون و خوشگوار زندگی گزارو، لیکن آج جس وقت میں تمہارے لیے یہ خط لکھ رہا ہوں، حالات اس سے بھی کہیں زیادہ بُرے ہیں، اس قدر ‘برے’ کہ ہم خود کو ذمہ دار، پڑھا لکھا شہری کہنے والے ان ‘بُرے’ حالات کو کھل کر بیان نہیں کر پاتے۔

پابندیوں کا یہ عالم ہے کہ تمہاری پیداش سے چند دن قبل ہی عوامی تفریح کی ایک ایپ “ٹِک ٹاک” پر پابندی لگا دی گئی اور آج (تہماری پیدائش) کے دوسرے دن عدالت میں یوٹیوب پر پابندی کی باتیں ہو رہی ہیں۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہم 2008، 2010، 2012 میں سوشل میڈیا پر یہ پابندیاں دیکھ چکے ہیں۔ خدا کرے کہ تم جب یہ پڑھ رہے ہو تمہیں پڑھتے ہی یہ عجیب لگے، اس بات پر یقین کرنا مشکل لگے کہ ‘ آخر کوئی حکومت کیوں کیسے ان پلیٹ فارمز پر پابندی لگا سکتی تھی؟’

لیکن بیٹا یقین مانو، ہم یہ بھگت چکے، بھگت رہے ہیں، تمہیں اور تمہارے ہم عصروں کو ایسے ‘برے دن’ نہ دیکھنے پڑیں، ہم اس کے لئے لڑ رہے ہیں، اپنی بساط کے مطابق لکھ ہے ہیں، بول رہے ہیں۔ اب تمہاری پیدائش نے ذمہ داری بڑھا دی، ہر ذمہ داری اپنے ساتھ ایک انجانہ خوف لاتی ہے خدا ہمیں اس خوف کا مقابلہ کرنے کی ہمت دے۔

بات خط لکھنے کی وجوہات سے شروع ہوئی تھی، تو اس قدر غیر یقینی صورتحال میں اگر خدانخواستہ ہمیں کچھ ہو جائے اور معلومات کی تلاش میں تم “مطالعہِ پاکستان” اور پاکستانی میڈیا کے ‘آدھے سچ’ جو جھوٹ سے کہیں زیادہ خطرناک ہے کی زد میں آجائو، اس قبل اپنے باپ کے لکھے یہ خط پڑھ لیناجو شاید تمہیں ہم سے، خود سے اس دھرتی سے روشناس کرانے میں مددگار ثابت ہوں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہماری یہ باتیں یا خطوط تمہارے لیے کوئی ‘راہیں’ متیعن کریں گے، ایسا بالکل بھی نہیں کیونکہ کارل مارکس نے کہا ہے کہ “ہر عہد کی نسل اپنی اقدار خود طے کرتی ہے” اور ہونا بھی یہی چاہیے.

ہم ان خطوط میں اپنے تجربات، اپنی ناکامیوں، اپنی حماکتوں اور اپنے خوابوں پر بات کریں گے۔ ہمارے ادھورے خواب، ہماری ناکامیوں کے تجرے شاید کہیں تمہاری کامیابی کے لئے راہیں آسان کریں، یا پھر تم ہمارے خوابوں کی تکمیل کے لئے ہمیں وہ ‘اصل’ راستہ دکھا دو جو ہم نہ دیکھ پائے، شاید کیونکہ کچھ یقنی نہیں سوائے اس بات کہ تمہارا باپ تم سے سبق لینے میں، تم سے سیکھنے میں فخر محسوس کرے گا۔ کیونکہ تم ٹیکنالوجی کہ جس دور میں پیدا ہوئے ہو، ٹیکنالوجی کی ترقی کی رفتار اس قدر ہے کہ ہم پچھلی صدی میں پیدا ہونے والے اس کی کئی پرتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ شاید تم جب یہ خط پڑھ رہے ہو تومیری عمر چالیس سال سے زیادہ ہو، اور اس وقت اگر اُس وقت چالیس، چوالیس سالہ بزرگوں نے چودہ سالہ بچوں سے سیکھنے میں عار محسوس کی تو وقت کی ایسی مار پڑے گی کہ سماج کی سمتیں متعین کرنا مشکل ہو جائے گا۔

خیر، میں نے کارل مارکس کی ایک بات کا حوالہ دیا، بلاشبہ تم اپنی اقدار، اپنی منزل خود طے کرو گے لیکن اگر اب تک کارل مارکس کو نہیں پڑھا، اس سے روشناس نہیں ہوئے، تو بوڑھے باپ کی گزارش ہے کہ پڑھ لو، بلا شبہ تمہارا وقت انتہائی قیمتی ہے لیکن یقین مانو یہ پچھلی صدی کا مارکس اور مارکسزم تہمیں آنے والی صدیوں سے روشناس کرائیں گے، میں نہیں جانتا کہ تمہارا یہ خط پڑھتے وقت کتابوں کی کیا اہمیت ہوگی یہ وہ کس ‘فارم’ میں میسر ہوں گی۔ اگر مطبوعہ کتابیں موجود ہیں، توتمہارے چاچو عابد میر کی ذاتی کلیشن سے کارل مارکس کی داس کیپیٹل، سید سبطِ حسن کی موسیٰ سے مارکس تک، اینگلز کی خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز اور میکسم گورگی کا ناول ماں پڑھ لو۔ ان کتابوں پر لگا وقت تمہیں، گزرا، موجوہ اور آنے والے وقت کی قدر بھی سمجھا دے گا۔

خط لکھنے کی دوسری وجہ، میری (تمہارے باپ) کی تربیت میں خطوط کا ایک اہم کردار رہا ہے، ان خطوط میں میرےبڑے بھائی (تمہارے بڑے چاچو) عابد میر، اور ہمارے ماموں کے ہمیں لکھے گئے خط اور پھر کچھ ان کے تجویز کردہ خطوط جن میں غالب کے خطوط، جینی اور مارکس کے خطوط وغیرہ شامل ہیں۔

تمہاری معلومات کے لئے بتا دوں کہ ہم شاید وہ آخری نسل(لوگ) ہیں جنہوں نے کاغذ پر لکھے پندرہ روز انتظار کر کے ملنے والے خطوط لکھے، پڑھے اور اب پندرہ سیکڈ سے کم وقت میں ترسیل ہونے والے ایس ایم اس، ای میل اور وٹس ایپ مسیجز سے لظف اندوز ہو رہے ہیں۔ (اگر تمہیں اب تک پتا نہیں چلا تو میری پیدائش 1988 میں ہوئی جو سرکاری ریکارڈ / شناختی کارڈ میں 1990 درج ہے)۔

اب غالبؔ کے خطوط کے ذکر سے پھر تم پریشان ہو تو پلیز غالب کو بھی پڑھ لو ، پڑھنا مشکل ہے تو 1988 میں مرزا غالب پر بنا گلزار صاحب کا ڈرامہ دیکھ لو جس میں نصیرالدین شاہ نے غالب کر کردار نبھایا ہے۔ اگر میری سستی اور غربت آڑے نا آئی تو یہ ساری چیزیں تمہیں ایک “لنک” کے ذریعے میسر ہوں گی۔ تمہارے دور کی جدید طرین ٹیکنالوجی کے ذریعے، پڑھنے دیکھنے سننے یا شاید پھر اسے بھی کہیں آگے کی کسی جدید سہولت کے ساتھ۔ پھر ایک شاید کہ موجودہ حالات میں کچھ بھی یقنی نہیں سوائے اس بات کہ، ہم تمہارے لئے صورتحال ‘یقینی’ بنانے، حالات کو تہمارے ‘اختیار’ میں لانے کے لئے ہر جائز ممکن کوشش و محنت جاری رکھیں گے۔

خط لکھنے کی تیسری وجہ، تمہاری پیدائش کے کچھ عرصہ قبل تک میں کچھ اچھا خاصا لکھ لیتا تھا (خوشی کی بات ہے نا کہ تمہارے باپ کو لکھنا بھی آتا ہے) لیکن این جی اوز کی مزدوری کو خود ساختہ جواز بنا کر میں لکھنے سے ایسے دور ہوا جیسے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ لیکن تربیت نے اظہار کی ایسی عادت ڈالی کی چپ بھی نہیں رہا جا سکتا، سو کچھ عرصہ سے لکھنے، بولنے کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے کا سوچ رہا تھا۔ تم نے یہ جواز دے دیا نئی جہت دے دی۔ اب تمہارے لئے لکھوں گا، کم از کم اتنا لکھنے کی کوشش کروں گا کہ تمہیں کوئی ‘سرکاری ادھورا سچ’ تمہیں گمراہ نا کر دے، تمہارے سوال کرنے کی قدرتی حِس کو زندہ رکھنے کے لئے لگھوں گا کیونکہ سوال ہی سیکھنے کی پہلی سیڑھی ہے۔

لکھنے کا سلسلہ ترک ہونے کے بعد سے ہم فیس بک و ٹوئیٹر پر صرف دو چار لائینز کے اسٹیٹس لگا ک خود کو اپنی ذمہ داری نبھانے کی تسلی دے دیتے ہیں۔ بیشک یہی اس طور کے پلیٹ فارم ہیں لیکن تحرریں آرگنائز نہیں رہی، غیر سنجیدہ، مطالعہِ پاکستان کے ادھورے سچ کی بھرمار نے ہر پوسٹ کو ‘مشکوک’ بنا دیا۔ ہیش ٹیک نے اپنی پوسٹس اور تحریریوں کو آرگنائز کرنے میں معاونت کی فراہم کی ۔ تمہیں اگر کبھی ضرورت پڑے تو فیس بک و ٹوئیٹر پر #خالدگرافی کا ہیش ٹیگ سرچ کر لینا، امید ہے میری ساری حماکتیں مل جائیں گی۔

چلو، آج کے لئے بہت ہو گیا۔ اس خط میں اتنا ہی، اس دعا کے ساتھ کہ خدا تمہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے، تم اپنے دور کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے سائے میں پلو بڑھو،، پڑھو خدا کرے تہمارے عہد کے انسان ‘اشرف’ ہونے کا عملی ثبوت دیں۔

آللہ تہمارا حامی و ناصر۔
تہمارا ابو،
خالد میر
16 اکتوبر 2020،
کوئٹہ، بلوچستان

Photo Dec 2021, Quetta

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *