“تعلیم ہی قوموں کی تعمیر و ترقی کا راستہ ہے” اس بات سے انکار ممکن نہیں۔ سڑکوں کی تعمیر، ترقی کی منازل میں کردار ضرور ادا کرتی ہے لیکن حقیقی ترقی و تبدیلی کے لیے معیاری تعلیم کو ہی اولین ترجیح بنانا پڑتا ہے۔ لیکن مملکتِ خداداد میں آج تک تعلیم کو اولین تو کجا ‘ثانوی’ ترجیح بھی نہیں ملی۔ تعلیم ہماری ترجیحات کی فہرست میں ‘نچلے’ درجوں میں جگہ پاتی رہی ہے۔ اور بلوچستان جو کہ’ لاوارث عالمی یتیم خانہ’ اس جنگل میں باقی مسائل کے بے شمار جانوروں اور بھیڑیوں نے ایسے گھیرے رکھا کہ ہمیں ْتعلیمٌ نامی چھوٹی سی ‘فاختہ’ کہیں نظر ہی نہیں آتی۔
موجودہ حکومت ( یا ڈاکٹر مالک کی سربراہی میں بننے والی گزشتہ “ڈھائی سالہ” حکومت) نے بلوچستان میں تعلیم کی بہتری کے اقدامات کے لیے “تعلیمی ایمرجنسی” کا اعلان کیا لیکن چار سال سے نافذ تعلیمی ایمرجنسی کہیں سودمند ثابت نہ ہوسکی۔ تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باجود آج بھی کہیں سیاسی بنیادوں پر قائم اسکولز بیٹھک بنائے جاتے ہیں تو کہیں منتخب نمائندوں کی عدم دلچسپی کے باعث تعلیمی فنڈز کا اجرا ممکن نہیں ہوتا۔
پورے صوبے میں کہیں بھی تعلیمی صورت حال “قابلِ رشک” نہیں ہے۔ لیکن سندھ بلوچستان کے سنگم پر واقعہ ہمارا آبائی علاقہ ضلع جعفرآباد جو کہ آج بھی نیم سرداری و جاگیرداری کی زدمیں ہے، وہاں صورت حال کچھ زیادہ ہی بگڑی ہوئی ہے۔ کیوں کہ تعلیم ‘جاگیرداری’ کے لیے “مضرِ صحت” ثابت ہوئی ہے اس لیے ہمارے علاقے پر ‘مسلط’ سرداروں، جاگیرداروں بے اسے “بچوں کی پہنچ سے دور” رکھا ہوا ہے ۔ جب کہ جاگیرداری و سرداری بذاتِ خود مہذب معاشرے اور ترقی کے لیے ‘مضرِ صحت’ ہے اس لیے ہم اس “ناسور” کو انسانی آبادیوں سے دور رکھنے کے خواہش مند ہیں۔
جاگیرداری کے مظالم و درد پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن اس وقت موضوعِ گفتگو تعلیم ہے۔ اور اس متعلق کسی “سرگرم مخلص دوست” نے نام ظاہر نہ کرنے کی ‘شرط’ پر بلوچستان اور خصوصاً ضلع جعفرآباد کے تعلیمی بجٹ کےمتعلق کچھ “اعدادو شمار” فراہم کیے ہیں۔ ہم چونکہ پہلے ہی اس “آگ” میں جھلسے ہوئے ہیں تو ‘دوستوں’ کی اس سے حفاظت کے لیے دعا گو ہیں اور ان کے شکریہ کے ساتھ یہ اعداد و شمار قارئین کے لیے پیشِ خدمت ہیں۔
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں تعلیمی صورت حال کی بہتری کے لیے مالی سال 2016-17 اور مالی سال2015-16 کی جاری تعلیمی ترقیاتی اسکیمات کے لیے مجموعی طور پر مختص ہونے والی 16 کروڑ روپے سے زائد رقم میں صرف سات کروڑ روپے جاری کیے جا سکے۔ حکومتی عدم دلچسپی وسنجیدگی کے باعث سیکڑوں بچیوں نے اسکول کو خیرآباد کہہ دیا۔ گرم ترین علاقہ ہونے کے باعث اسکولوں میں سہولیات انتہائی ناگزیر ہیں جو بدقسمتی سے فراہم نہیں کی جات ہیں۔
ضلع جعفرآباد کے لیے سال 2016-17ء کے سیکنڈری تعلیمی ترقیاتی بجٹ میں تقریبا 9 کروڑ 28 لاکھ 37 ہزار روپے (92837000) مختص کیے گئے ہیں جب کہ مالی سال 2015-16 کی جاری ترقیاتی اسکیمات کے لیے 6 کروڑ 98 لاکھ 19 ہزار (69819000 )تھے۔ مالی سال 2016-17 کے لیے مختص کیے گئے بجٹ اور جاری اسکیمات کے لیے مختص رقم مجموعی طور پر 16 کروڑ 26 لاکھ 56 ہزار ( 162656000 ) بنتی ہے۔ مالی سال ختم ہونے کے قریب ہے لیکن بلوچستان حکومت کی جانب سے مختلف ترقیاتی مد میں 7 کروڑ 1 لاکھ 19 ہزار کے قریب فنڈز کا اجرا کیا گیا اور 9 کروڑ 25 لاکھ سے زائد رقم کا اجرا تاحال نہیں ہو سکا۔ جس کے باعث سیکڑوں سکولوں میں جاری ترقیاتی کام مکمل نہیں ہو سکے اور نہ ہی ایک کمرہ ایک استاد پر مشتمل اسکولوں کے لیے چار دیواری اور دیگر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
اعداد شمار کے مطابق ضلع جعفرآباد میں بیشتر گرلز اسکولوں میں چار دیواری نہ ہونے کے باعث 68 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ضلع جعفر آباد کے لیے گزشتہ سال شیلٹر لیس اسکولوں کے لیے 1 کروڑ مختص کیا گیا تھا۔ جب کہ مالی سال2016-17ء کے بجٹ میں 1 کروڑ دس لاکھ مختص کیے گئے۔ مختص ہونے والے بجٹ میں 7 شیلٹر لیس اسکولوں کے لیے 2 کروڑ دس لاکھ روپے فراہم کیے گئے جن میں 6 بوائز اسکولوں اور صرف ایک گرلز اسکول بنایا جا رہا ہے۔
جعفر آباد کی تحصیل اوستہ محمد، گنداخہ میں مالی سال 2016-17 کے دوران 5 کروڑ چالیس لاکھ روپے کے 96 مختلف پرائمری اور مڈل اسکولز میں ایڈیشنل کلاس رومز بنائے جا رہے ہیں جن کا کام تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ضلع میں پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے ہونے والے ترقیاتی کاموں پر نظر دوڑائی جائے تو 5 کروڑ 40 لاکھ روپے کی لاگت سے ہونے والے کاموں میں 2 کروڑ چالیس لاکھ روپے ماضی کے بجٹ میں رکھے گئے۔ فنڈز سے ترقیاتی کاموں کو مکمل کیا گیا۔
بدقسمتی سے ترقیاتی مد میں اور اسکولوں کی اپ گریڈیشن کے لیے جتنے فنڈز مختص کیے گئے اس دوران محکمہ تعلیم کو مکمل اندھیرے میں رکھا گیا اور ماضی میں بھی ڈیپارٹمنٹ کو فنڈز کے اجرا میں شامل نہیں رکھا جاتا، جس کی وجہ سے ضلع بھر میں سیاسی بنیادوں پر قائم ہونے والے 30 سے زائد اسکول محکمہ تعلیم کے ریکارڈ پر موجود نہیں اور نہ ہی بلوچستان ایجوکیشنل مینجمنٹ اینڈ انفار میشن سسٹم میں ان اسکولوں کا کوئی ریکارڈ یا کوڈ موجود ہے۔ جس کی وجہ سے تعمیر ہونے والے اسکولوں کی عمارتیں سیاسی اور علاقے کے قبائلی معتبرین کی بیٹھک بن گئی ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر قائم ہونے والے اور اپ گریڈ ہونے والے اسکولوں کے14 فیصد بچے پرائمری سے مڈل تک پہنچ پاتے ہیں۔
بلوچستان کے دیگر اضلاع کی طرح جعفر آباد میں بھی تعلیمی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ منتخب نمائندوں کی جانب سے ذاتی پسند و نا پسند کی بنیادوں پر اسکیمات کی بندر بانٹ نے بھی تعلیم کو 100 سال پیچھے کر دیا ہے۔ موجودہ تعلیمی بجٹ کے فنڈز منتخب نمائندوں نے جس طریقے سے تعلیم کے لیے مختص فنڈز کی بندر بانٹ کی، یہ نا صرف ان کی کارکردگی اور بلند بانگ دعوؤں پر سوالیہ نشان ہے بلکہ جعفرآباد کے دور دراز علاقوں میں گرلز مڈل اور ہائی اسکولوں کا قائم نہ ہونا خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے کی گہری سازش سے کم نہیں۔
حکومتی عدم دلچسپی اور منتخب نمائندوں کی بندربانٹ سے جعفر آباد میں تعلیمی بہتری کے بجائے تعلیمی تباہی کی طرف گامزن نظر آتاہے۔ رواں مالی سال اپنے اختتام کے قریب ہے لیکن اب بھی تعلیم کے لیے کوئی بھی ترقیاتی اسکیم مکمل نہیں ہو سکی اور ضلع جعفر آباد میں 50 فیصد سے زائد اسکیمات پر کام شروع کیا گیا ہے۔ اب تک کوئی بھی اسکیم اپنی تکمیل کو نہیں پہنچی۔ بلوچستان میں تعلیمی بجٹ کو 24 فیصد تک پہنچایا گیا لیکن اس کے ثمرات عوام اور خصوصاً تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور بچیوں تک نہیں پہنچ سکے اور جعفرآباد کے بیشتر اسکولز جن میں گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول ڈیرہ اللہ یار سر فہرست ہے کی بدحالی چیخ چیخ کر منتخب نمائندوں کی ترجیحات اور کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے۔ نیز کئی گرلز مڈل اسکولز کو اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے لیکن نمائندوں کی جانب سے محکمہ تعلیم سے کوئی بھی رائے نہیں لی جاتی۔
جعفرآباد کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیں تو اس وقت بھی صرف 11 فیصد طلبا میٹرک تک پہنچ پاتے ہیں۔ زیادہ تر طلبا و طالبات اسکولز دور ہونے یا سہولیات کی کمی کی وجہ سے تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا پرائیوٹ میٹرک کرتے ہیں۔ جس سے ان کے پاس ڈگری تو آجاتی ہے لیکن تعلیم نہیں۔ جس کی اس ترقی یافتہ اور سائنسی دور میں اشد ضرورت ہے۔ ”
جعفرآباد کے دو صوبائی اور ایک وفاقی حلقہ پر منتخب نمائندوں کا تعلق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے ہے جنہوں نے حکومت میں آ کرتعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کا 4 فیصد تک کرنے کا وعدہ کیا تھا جو کہ اب تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ اس ضمن نہ صرف جعفرآباد بلکہ بلوچستان بھر کے باشعور عوام ، سول سوسائٹی اور سیاسی و سماجی حلقوں کامطالبہ ہے تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کا 4 فیصد تک کر کے حکومت تعلیم دوستی کا ثبوت دے، اور تعلیم کی بہتری کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔