اہمیت والی کتاب:
چیزوں کو دیکھنے اور ان کے متعلق رائے قائم کرنے کا ہر ایک کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ میں بھی اسی ’بیماری‘ کا شکار رہا ہوں۔ اور بات، ہر موضوع کا ایک الگ پہلو دیکھنا، کوئی غیر معروف بات سوچنا، اور اسی طرح عجیب و غریب باتیں لکھنا میرا ’مرض‘ ہے۔
اب یہ مرض اچانک بڑھنے کی وجہ گزشتہ دو دنوں میں کتاب کے عالمی دن کی مناسبت سے کوئٹہ میں منعقد ہونے والی دو تقریبات ہیں۔ حالاں کہ ان دونوں تقریبات میں میری ذمہ داری مہردر اور سنگت اکیڈمی کی کتابیں ’بانٹنا‘ تھا، لیکن کچھ وقت نکال کر تقریبات میں کچھ مقررین کو سننے کا موقع بھی پا لیا۔
بروز اتوار کوئٹہ پریس کلب اور بروز سوموار جامعہ بلوچستان میں کتاب کے عالمی دن کو منانے کی مناسبت سے منعقد ہونے والی دونوں تقریبات میں موضوعِ گفتگو ’’کتاب کی اہمیت‘‘ تھا۔ اور جتنے معزز مقررین کو میں سُن پایا، سب نے انتہائی خوب دلائل دے کر کتاب کی اہمیت بتانے کی بھر پور کوشش کی اور’ ہمیں ہر حال میں کتابیں پڑھنا چاہیے‘ دہراتے رہے۔ ہر دو تقاریب میں موجود دو، دو سو سے زائد افراد میں سے نوے فیصد سے زائد شرکا اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبا، طالبات، اساتذہ اور ادیب تھے۔
میرا الگ تھلک سوچنے والا مرض جاگنے کی وجہ اس طرح کا تعلیم یافتہ، پڑھے لکھے شرکا کے درمیان ’موضوعِ گفتگو‘ ہے۔ کیوں کہ ان دونوں تقریبات کے شرکا میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو کتاب کی اہمیت سے انکاری ہو۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں کتاب کا عالمی دن منانے کے حق میں نہیں یا پھر کتاب کو ’موضوعِ گفتگو‘ بنانے کا انکاری ہوں۔ میں ہر دو تقریب منعقد کرانے پر ان کی انتظامیہ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ ہم سے تو یہ بھی نہیں ہو پایا کم از کم انہوں نے اتنی ہمت تو کی۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر ان تقریبات میں موضوعِ گفتگو صرف کتاب کی اہمیت کے بجائے ’کس کتاب کی کتنی اہمیت اور ضرورت‘ ہوتا۔
آپ حیران و پریشان نہ ہوں، میں نے ابتدا میں ہی کہا کہ مجھے الگ تھلگ سوچنے اور عجیب و غریب باتیں لکھنے کی ’بیماری‘ ہے۔ اور میرا یہی ’مرض‘ کہتا ہے کہ ہمیں صرف کتاب پڑھنے کے بجائے (خصوصاً ان افراد کے درمیان جو پہلے ہی پڑھ رہے ہیں) کون سی کتاب پہلے اور لازمی پڑھنی ہے اور کن کتابوں سے اب جان چھڑانی ہے، پر بحث کی ضرورت ہے۔
ہمیں تعلیم کی اہمیت بات کرنے کے بجائے ’ کس طرح کی تعلیم کی ضرورت ہے‘ پر مباحث کی ضرورت ہے۔ ’ کرپشن سے انکار‘ کے نعروں کے بجائے اس کی وجوہات پر بات کرنے کی ضرورت ہے اور ’دہشت گردی و انتہا پسندی نہ منظور‘ کے پلے کارڈ یا فیس بک اسٹیٹس لگانے کے بجائے اس کے خلاف ’عملی جدوجہد‘ کی ضرورت ہے۔
اور ’عملی جدوجہد‘ کا آغاز تبھی مکمن ہوگا جب ہم جوانوں کو ’ کچھ بھی پڑھ لو‘ کے بجائے ’ کچھ بامعنیٰ‘ پڑھنے کا مشورہ دیں گے اور جب ہمیں ’ کتاب کی اہمیت‘ کے ساتھ ساتھ ’اہمیت والی کتاب‘ کا پتہ ہوگا۔
Khalidgraphy