فلموں کے متعلق میں وہی راۓ رکھتا ہوں جو ‘ڈرٹی پکچر’ میں ودیا بالن نے بتائی ہے۔ کیوں کہ اچھے خیال، اچھی کہانیاں تو کتابوں میں ہی مل جاتی ہیں لیکن ہر عام آدمی کی کتاب سے دوستی نہیں ہوتی اس لیۓ کچھ بہت سے اچھے خیالات اچھی کہانیوں کو عوام تک پہنچانے کے لیۓ ‘عوامی میڈیم’ کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں سے فلم ایک اہم میڈیم ہے۔ 

میں بھی چونکہ عام آدمی ہوں، کتابوں سے زیادہ ‘اسکرین کی دنیا’ سمجھ آتی ہے، اس لیۓ غالب اور منٹو کی سوانح حیات پڑھنے کے بجاۓ ان کی زندگی پر بنی فلمیں پسند کرتا ہوں۔ 

حال ہی میں پاکستانی فلم ‘جواۓلینڈ’ پر پابندی والے نعرے دیکھ کر اس فلم کو دیکھنے کا تجسس ہوا اور دو روز قبل سالگرہ کے دن ایک دوست نے یہ فلم مجھ تک پہنچائی۔ 

دو گھنٹے کی اچھی خاصی ‘اسٹوری’، اچھے خیالات میں، مجھے کہیں دو منٹ بھی ‘فلم’ دیکھنے کو نہیں ملی۔ 

اس سے قبل کے دانشور حضرات اور ٹرانس رایٹس ایکٹیوسٹ مجھ پر ‘فتوے’ لگانا شروع کریں، براۓ مہربانی اس سے قبل میری وضاحت پڑھ لیں۔ مجھے اس (براۓ نام فلم) کی کہانی یا خیال سے کوئی اختلاف نہیں۔ بلکہ یہ وہی باتیں ہیں جو کئی سالوں سے ہم زمانے کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن عوام الناس کے لیۓ یہ بالکل نئی، الگ، اچھبتی باتیں ہیں، یہ باتیں، یہ خیالات عوام میں ،یر بحث لانے کے لیۓ این جی اوز کے چند سیمینارز، کانفرنس یا دو چار اچھی تحریریں کافی نہیں۔ اس کے لیۓ فلموں اور ڈراموں کی اشد ضرورت ہے اور فلمیں بھی وہی جو عام آدمی دیکھ سکے، سمجھ سکے، اور سب سے بڑھ کر ‘انجواۓ’ کر سکے۔ 

فلم نگار، فلم ساز اور فلمی تبصرہ کاروں سے پیشگی معذرت کے ساتھ میں یہ راۓ پہلے بھی دے چکا ہوں کہ ‘آرٹ مووی’ عوامی مووی نہیں ہوتیں، اس لیۓ اس کیٹگری کی اکثر فلمیں سنیما پر ناکام ہو جاتی ہیں۔ 

میری عمومی (عام آدمی والی) راۓ کے مطابق جواۓ لینڈ کا موضوع یا طرز آرٹ مووی کے بجاۓ عمومی/عوامی مووی والا ہونا چاہیۓ تھا، اس کہانی، اس طرح کے اچھبتے خیالات پر عوامی فلمیں بنانے کہ ضرورت ہے۔ 

اگر آپ بھی میری طرح کے عام آدمی ہیں اور اب تک پریشان ہیں کہ میں کہنا کیا چاہتا ہوں اور اس کی کچھ مثالیں چاہیئں تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس طرح کے اچھبتے موضوعات پر ماضی قریب اور حال میں انڈین فلم انڈسٹری میں کچھ فلمیں بنی اور عوامی مقبولیت بھی حاصل کی۔ 

انڈین فلم “پی کے” اس کی ایک بہت اچھی مثال ہے، پھر “میمی” دیکھ لیں یا “وِکی ڈونر” اور پھر “چندیگڑھ کرے عاشقی”” وغیرہ ایسی چند مثالیں ہیں جہاں نئے، اچھبتے خیالات کو زیر بحث لایا گیا لیکن انتہائی ہلکے پھلکے، ہنستے مسکراتے عوامی انداز میں، یہ سب کہانیاں ‘فلم’ سے بھرپور ہیں۔ وہ فلم جو ایک عام آدمی دیکھ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے پھر اس پر کبھی کبھار بات کر سکتا ہے۔ 

جواۓلینڈ کے موضوع پہلے ہی سماج میں ‘ممنوع’ ہے ان موضوعات پر بات چیت نہیں ہوتی پھر اگر ان انتہائی حساس موضوعات پر اس قدر “بورنگ” فلم بن بھی جاۓ، اس پر پابندی ہٹ بھی جاۓ تو یہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہی رہے گی۔ پابندی ہٹانے سے قبل اس طرح کی فلموں کو عوامی بنانے کی ضرورت ہے۔ 

خالدگرافی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *